مائنس فاروق ستار فارمولا؟
مائنس فاروق ستار فارمولا؟

پاکستان کے الیکشن کمیشن نے متحدہ قومی موومنٹ کے تنظیمی انتخابات کو مسترد کردیا ہے جس کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار تنظیم کے کنوینر نہیں رہے۔
ایم کیو ایم بہادر آباد گروپ کے رہنما خالد مقبول صدیقی، فروغ نسیم اور دیگر نے ڈاکٹر فاروق ستار کی کنوینر شپ کو چیلینج کیا تھا، الیکشن کمیشن نے مختصر فیصلے میں پیر کے روز ان کا دعویٰ قبول کرلیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے سے قبل سینیٹ کے انتخابات میں بھی ڈاکٹر فاروق ستار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے حمایت یافتہ امیدوار کامران ٹیسوری کو شکست ہوئی تھی جبکہ مخالف گروپ کے بیرسیٹر فروغ نسیم نے کامیابی حاصل کی۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے اس الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ایک سیاہ باب قرار دیا ہے اور کہا کہ اس فیصلے کو بھی جسٹس منیر کے فیصلے کی طرح یاد رکھا جایے گا کیونکہ یہ بھی غیر منصفانہ اور غیر آئینی ہے۔
اس سے قبل تنظیمی انتخابات اور تنظیمی کے اندرونی اختلافات پر الیکشن کمیشن نے کبھی کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ انھیں الطاف حسین کے سامنے کھڑے ہونے کی سزا دی گئی ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار اور دباؤ
21 اگست کو ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے متنازع تقریر کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار نے لندن قیادت سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ انھوں نے اندرونی اور بیرونی سطح پر دباؤ اور سیاسی اور صحافتی محاذوں پر مخالفت کے باوجود جماعت کو قومی سیاست سے جوڑے رکھا۔
سینیئر تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ 22 اور 23 اگست کی درمیانی کی شب کو جو کچھ بھی ہوا اس کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار مسلسل دباؤ میں رہے، ان کی تنظیمی صلاحیت اپنی جگہ لیکن وہ تنظیمی معاملات کو منظم انداز میں لے کر نہیں چل پا رہے تھے۔
'ڈاکٹر فاروق ستار پچھلے کئی سالوں سے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر تھے یعنی جب متحدہ واقعی متحد تھی ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان دو علیحدہ چیپٹر تھے لیکن مل کر کام کرتے تھے۔ اس وقت ڈاکٹر فاروق ستار پر اس طرح کر دباؤ نہیں آتا تھا جو بھی صورتحال ہوتی تھی اس میں حتمی فیصلہ ایم کیو ایم لندن یا الطاف حسین کا ہوتا تھا تو اس میں انھیں اس طرح کے دباؤ کا سامنے نہیں کرنا پڑتا تھا۔'
ایم کیو ایم اور شناخت کا بحران
قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر فرحان صدیقی کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم اس وقت شناخت اور تنظیمی بحران سے گزر رہی ہے۔

'شناخت کا مسئلہ یہ ہے کہ جس تنظیم کی بنیاد الطاف حسین نے ڈالی اور وہ ان کی شخصیت کے گرد چلتی تھی۔ اب وہ پارٹی میں نہیں رہے، ان کے بغیر کیا نئے نعرے ہوں گے کیا پالیسی ہوگی یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب جب الطاف حسین نہیں رہے تو پارٹی کا سربراہ کون بنے گا یہ بھی طے نہیں ہو پا رہا۔ یہ ہی دو وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ موجودہ بحران نظر آتا ہے۔‘
فرحان صدیقی کے مطابق ڈاکٹر فاروق ستار نے وہ ہی پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش کی جو الطاف حسین کی ہوتی تھی یعنی وہ اپنے طور پر فیصلہ لیں گے اور یہ فیصلے ہی حتمی ہوں گے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ وقت کوئی ثالث نہیں ہے جو ان تنازعات کو حل کرا سکے جب الطاف حسین کی قیادت تھی تو وہ ثالثی کا کام بھی سرانجام دیتے تھے یعنی کسی کو تنظیم سے خارج کر کے تو کسی کو منا کر واپس لانا۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان بھی اس وقت دو دھڑوں میں موجود ہے، جن میں ایک دھڑے کی قیادت ڈاکٹر فاروق ستار کر رہے ہیں، جس میں کامران ٹیسوری، علی رضا عابدی اور دیگر شامل ہیں جبکہ دوسرے کو بہادرآباد گروپ کہا جارہا ہے، اس گروپ میں خالد مقبول صدیقی، عامر خان، کنور نوید، فروغ نسیم، نسرین جلیل، میئر وسیم اختر، فیصل سبزواری اور دیگر شامل ہیں۔
ڈاکٹر فاروق ستار کا مستقبل
ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی رضا عابدی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجو ع کرنا چاہیے جبکہ ڈاکٹر فاروق کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ خالد مقبول صدیقی اور وہ ایک مشترکہ ایڈہاک کمیٹی بنائیں جو معاملات دیکھیں لیکن بعد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مائنس الطاف حسین کے بعد مائنس ڈاکٹر فاروق فامولے پر عمل کیا گیا ہے۔

تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ اگر ڈاکٹر فاروق ستار کنارہ کش ہوجاتے ہیں تو اس سے ایم کیو ایم کو نقصان ہوسکتا ہے کیونکہ ایم کیو ایم بہادر آباد گروپ کے لیے بڑا امتحان ہوگا کہ اگر ڈاکٹر فاروق تمام معاملات ان کے حوالے کردیتے ہیں تو کیا وہ ان کے بغیر پارٹی چلا پائیں گے؟
تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار اگر خالد مقبول گروپ کے سائے میں چلے جاتے ہیں جو ایک مشکل فیصلہ ہوگا پھر تو ایم کیو ایم الیکشن سیاست میں موجود رہ پائے گی ورنہ اس کے مزید بکھرنے کے امکانات موجود ہیں، کیونکہ جب ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت کو قبول نہیں کیا گیا تو خالد مقبول صدیقی کی قیادت کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے، ان کا درجہ بھی چھوٹا ہے اور ویژن بھی اس طرح کا نہیں ہے۔
کراچی میں آنے والے انتخابات میں ایم کیو ایم سے مقابلے کے لیے مصطفیٰ کمال کی زیر قیادت پاک سرزمین پارٹی کے علاوہ تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی متحرک ہے جس نے شہر میں ترقیاتی منصوبوں کی تعداد اور رفتار میں پچھلے سالوں کے مقابلے میں اضافہ کیا ہے۔
تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کی زیر قیادت ایم کیو ایم پی آئی بی خاموش ہوجاتی ہے تو بھی ایم کیو ایم کے اندرونی مسائل ختم نہیں ہوں گے، اگر ڈاکٹر فاروق ستار کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں تو ان کے دیگر کئی ساتھی بھی وہ ہی راہ اختیار کرسکتے یا پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہوجائیں گے، جس سے ایم کیو ایم کے لیے مشکلات پھر بھی کم نہیں ہوں گی۔
ووٹر ٹرن آؤٹ کم ہونے کا امکان
ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں نے علیحدہ سینیٹ انتخابات لڑنے کے علاوہ یوم تاسیس کی تقریبات بھی الگ الگ منعقد کیں، قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر فرحان صدیقی کا کہنا ہے کہ جو اوپر کی سطح پر نظر آرہا ہے کہ یومِ تاسیس مختلف جگہوں پر منائے گئے جن میں لوگوں کی شرکت کافی کم تھی۔
'اندرونی اختلافات کو ووٹراچھی نظر سے نہیں دیکھ رہے نتیجے میں انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ کافی کم ہوسکتا ہے، جس کا فائدہ دیگر جماعتیں اٹھا سکتی ہیں۔ آنے والے انتخابات میں سب سے بڑا خطرہ ایم کیو ایم کے لیے یہ ہے کہ اگر وہ اپنا منظم ووٹ بینک ایک جگہ پر نہیں لاتے تو یہ امکان ہے کہ دوسری جماعتیں یہ نشستیں لے جائیں گی۔‘
Comments
Post a Comment