نانگا پربت پر خراب موسم کے باوجود اطالوی اور برطانوی کوہ پیماؤں کی تلاش جاری
محمد زبیر خانصحافی
02 مارچ 2019
اس پوسٹ کو شیئر کریں Email اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس بک اس پوسٹ کو شیئر کریں ٹوئٹر اس پوسٹ کو شیئر کریں وٹس ایپ
Image copyrightAFP
Image captionنانگا پربت پاکستان کی دوسری سب سے بلند چوٹی ہے
پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں نانگا پربت پر ’موسم سرما کی مہم‘ یعنی ’ونٹر ایکسپی ڈیشن‘ کے دوران لاپتہ ہونے والے برطانوی کوہ پیما، 30 سالہ ٹام بالارڈ اور 42 سالہ اطالوی کوہ پیما ڈینلی نوردی کی تلاش جاری ہے۔
نانگا پربت کو پہلی مرتبہ سرما کی مہم میں فتح کرنے والی ٹیم کا حصہ، پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارا اور دیگر کوہ پیماؤں کو امدادی سرگرمیوں کے لیے ہیلی کاپٹر کے ذریعے نانگا پربت میں لاپتہ کوہ پیماوں کے بیس کیمپ میں پہنچایا گیا۔
علی سدپارا کے مطابق برفباری، دھند اور برفانی تودے گرنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر آنے والے دونوں میں موسم بہتر ہوتا ہے تو تلاش کے کام میں تیزی لائی جاسکتی ہے۔
نانگا پربت پر ماضی میں ہونے والے واقعات کے بارے میں پڑھیے
تلاش کا عمل ک س قدر مکمل ہو چکا ہے؟
Image captionبرطانوی کوہ پیما، 30 سالہ ٹام بالارڈ اور 42 سالہ اطالوی کوہ پیما ڈینلی نوردی
الپائن کلب آف پاکستان اور ٹور آپریٹر الپائن ایڈونچر گائیڈ کے مطابق فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے سات ہزار میٹر کی بلندی سے تلاش کا کام شروع کیا گیا تھا جس میں 5500 میٹر کی بلندی پر سرخ نارنجی رنگ کا برف میں ڈوبا ہوا ٹینٹ نظر آیا ہے، مگر وہاں پر زندگی کے کوئی اثرات نہیں تھے۔
جعمہ کے روز برف باری کے سبب امدادی سرگرمیوں میں تعطل آیا تھا جو کہ ہفتے کے روز دوبارہ شروع ہو جائیں گی۔
دونوں کوہ پیما قاتل پہاڑ یا کلر ماؤنٹین کہلانے والے نانگا پربت کواب تک کے ناممکن روٹ ’میمری‘ سے فتح کرکے تاریخ رقم کرنا چاہتے تھے۔واضح رہے کہ نانگا پربت کو موسم سرما کی مہم میں آج تک صرف 2016 ہی میں فتح کیا جاسکا تھا۔
ان دونوں کوہ پیماؤں نے 22 دسمبر کو اپنے سفر کا آغاز دو پاکستانی کوہ پیماؤں رحمت اﷲ اور کریم حیات کے ساتھ شروع کیا تھا مگر دونوں پاکستانی کوہ پیما سفر شروع ہونے کے چند دن بعد ہی واپس آگئے تھے۔
الپائن ایڈونچر گائیڈ کے مطابق دونوں نے واپسی پر بتایا کہ وہ ’بیمار‘ ہونے کے باعث واپس آئے تھے مگر جب بی بی سی نے دونوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تو کوئی جواب نہیں ملا۔
الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کوئرا حیدری کے مطابق دونوں کوہ پیماؤں کا 24 فروری سے اپنے بیس کیمپ سے رابطہ نہیں ہوا جس کی باضابطہ اطلاع ملنے کے بعد ان کی تلاش کا کام شروع کیا گیا اور اب تک انہیں ڈھونڈنے کے لیے تین آپریشن کیے جا چکے ہیں۔
Image captionتلاشی کی کاروائی کے لیے انتہائی کشیدہ حالات میں بھی پاک فوج نے ہیلی کاپیٹر مہیا کیا
نانگا پربت میں اس وقت کم از کم درجہ حرارت منفی 55 ڈگری ہے۔
دوسری جانب دیگر اطلاعات کے مطابق انڈیا کے ساتھ پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد بدھ کے روز امدادی کارکنان کو ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی جس کی وجہ سے تلاش کا کام تاخیر کا شکار ہوا۔
ذرائع کے مطابق دنیا کے دوسرے سب سے بلند پہاڑ کے ٹو پر موجود روس کے کوہ پیما تلاش میں مدد فراہم کرنے کے لیے ڈرون استعمال کرناچاہتے تھے مگر اس کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔
تاہم کوئرا حیدری کے مطابق انتہائی کشیدہ حالات میں بھی پاک فوج نے ہیلی کاپیٹر مہیا کیا تھا۔
بی بی سی کے رابطہ قائم کرنے پر ٹام بالارڈ کی بہن کیتھرین بلارڈ کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے ان کا بھائی اور ساتھی زندہ سلامت مل جائیں گے اور اس موقع پر ابھی وہ کچھ اور نہیں کہنا چاہتی ہیں۔
کوہ پیما کون ہیں ؟
Image captionبرطانوی کوہ پیما ٹام بالارڈ کی بہن کیتھرین بلارڈ بھی کوہ پیما ہیں جو اپنے بھائی کے ساتھ سال 2017 میں پاکستان آئی تھیں
الپائن ٹور آپریٹرز کے علی محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ خود بھی کوہ پیما رہے ہیں مگر زخمی ہونے کے بعد اس قابل نہیں رہے کہ کوہ پیمائی کرسکیں جس کے بعد انھوں نے خدمات فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
وہ دونوں کوہ پیماؤں سے طویل عرصہ سے واقفیت رکھتے ہیں۔ اطالوی کوہ پیما ڈینلی نوردی کئی سالوں سے پاکستان آرہے ہیں اور کئی مہمات کامیابی سے سر کرچکے ہیں۔
ان دونوں نے ماضی میں نانگا پربت کو سر کیا ہوا تھا جبکہ برطانوی کوہ پیما ٹام بالارڈ گذشتہ چار سال سے پاکستان آرہے ہیں ۔
اطالوی کوہ پیما ڈینلی نوردی تین، چار سال سے نانگاپربت پر سرما کی مہم مکمل کرنا چاہتے تھے مگر اس میں کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ اس سال انھوں نے برطانوی کوہ پیما ٹام بالارڈ کے ساتھ مل کر قاتل پہاڑ کو میمری کے روٹ سے فتح کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
علی محمد کے مطابق برطانوی کوہ پیما ٹام بالارڈ کے خون میں مہم جوئی شامل ہے۔ ان کی والدہ ایلسین ہارگریو 1995 میں کے ٹو سر کرنے کے بعد واپسی کے سفر میں حادثے کا شکار ہو کر ہلاک ہوگئیں تھیں۔
ان کی بہن کیتھرین بلارڈ بھی کوہ پیما ہیں جو اپنے بھائی کے ساتھ 2017 میں پاکستان آئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹام بالارڈ بچپن سے خواب دیکھا کرتے تھے کہ وہ بلند و بالا اور مشکل ترین چوٹیاں فتح کررہے ہیں اور یہ سلسلہ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری تک جاتا ہے۔
نانگا پربت قاتل پہاڑ کیوں؟
Image captionنانگا پربت کو دنیا کے خطرناک ترین پہاڑوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جہاں موسم سرما میں درجہ حرارت منفی 55 ڈگری تک گر جاتا ہے
نانگا پربت کو 1953 میں پہلی مرتبہ فتح کرنے سے قبل اس کوشش میں کم از کم 31 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جس بنا پر اس کو قاتل پہاڑ یا کلر ماؤنٹین کا نام دیا گیا تھا۔
مجموعی طور پر یہ پہاڑ اب تک کم ازکم 83 کوہ پیماؤں کی زندگی لے چکا ہے جبکہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ میں یہ تعداد 297 اور کے ٹو میں 86 ہے۔
نانگا پربت دنیا کی نویں اور پاکستان کی دوسری بڑی چوٹی ہے مگر اس کو کے ٹو کے بعد دنیا کا مشکل ترین پہاڑ گردانا جاتا ہے جہاں پر ایک اندازے کے مطابق شرح اموات 23 فیصد ہے۔
دونوں کوہ پیما جس روٹ سے سرما کی مہم پر نکلے تھے اس روٹ پر 1895 میں برطانوی کوہ پیما البرٹ میمری برفانی تودے کا شکار ہوکر ہلاک ہوچکے تھے اسی بنا پر اس روٹ کو میمری کا نام دیا گیا تھا۔
علی محمد کا کہنا تھا کہ میمری روٹ انتہائی خوفناک سمجھا جاتا ہے جہاں سے نانگا پربت کو فتح کرنا اب تک خواب بنا ہوا ہے۔ اس روٹ پر برفانی تودے انتہائی کثرت سے گرتے رہتے ہیں۔ نانگا پربت پراب تک ایک اندازے کے مطابق زیادہ اموات اسی روٹ پر ہوئی ہیں
Comments
Post a Comment